دلچسپ معلومات

کیا آرکٹک کی برف کو دوبارہ فریز کیا جاسکتا ہے؟

آرکٹک کی برف بہت جلد ختم ہونے والی ہے اور جب یہ مکمّل طور پر پگھل جاۓ گی تو دنیا آج کی طرح نہیں دکھے گی. اگر میں یہ کہوں کہ کچھ طریقےایسے ہیں جن کے ذریعے سے اس عمل کو روکا یا کم جا سکتا ہے؟ اور یہ کام مصنوعی برف کے ٹکڑوں کی جیو انجنیئررنگ کے ذریعے سے کیا جا سکتا ہے.
آرکٹک پچھلے30 سالوں میں تقریباً اپنی تمام ہی سب سے پرانی اور موٹی برف کی تہہ کو کھو چکا ہے اور اب آرکٹک کے 80 فیصد حصّے پر صرف موسمی برف ہی رہ گئی ہے جو گرمیوں میں سکڑ یا ختم ہو جاتی ہے اور سردیوں میں دوبارہ سے جم جاتی ہے. کچھ تخمینوں کے مطابق اگر زمین اسی رفتار سے گرم ہوتی رہی تو 2030 میں آرکٹک اپنی اس موسمی برف کو بھی کھو دیگا اور اس کا اثر آرکٹک سے زیادہ باقی دنیا پر ہو گا.

آرکٹک دنیا کے لیے ایک فریزر کا کام کرتاہے اوراس دنیا کو ٹھنڈا رکھتا ہے اور اس کے پگھل جانے کے بعد دنیا کا موسم اور اس کا موسمیاتی نظام انتہائی غیر متوقع طریقے سے تبدیل ہو جائے گا مثلا گرمیوں کا دورانیہ طویل تر ہو جانا، سمندروں کی سطح کا بلند ہو جانا اور شدید قسم کے سیلاب آ جانا۔

جیسا کہ پہلے بھی کہا کہ ہم اس پگھلتی برف کو دوبارہ جما سکتے ہیں لیکن کیسے؟

لیکن اس کے لیے کرنا کیا ہوگا؟

اور جواب ہے جیو انجینئرنگ۔۔۔۔ جی ہاں ہم اس برف کو دوبارہ آرکٹک میں لے جا سکتے ہیں ہوا سے چلنے والے پمپس کے ذریعے۔۔ اس کے لئے تقریبا 1 کروڑ پمپس کی ضرورت ہوگی یہ پمپس سمندری پانی کو برف کے گلیشیئرز کے اوپر چھڑکاؤ کریں گے جس سے گلیشیئرز کے اوپر برف کی ایک اور پرت بن جائے گی اور ایک سردی کے موسم میں یہ پرت ایک میٹر موٹی برف کی تہہ کا اضافہ کر سکیں گے لیکن اس سب کے کرنے کی لاگت تقریبا 500 ارب ڈالر ہوگی اگرچہ یہ دنیا کی کل جی ڈی پی کا صرف ایک فیصد بنتا ہے لیکن کئی حکومتوں کے لیے ایک بہت بڑی رقم ہوگی۔

لیکن اس سب کے لئے کچھ اور ذرائع بھی ہیں۔

قطبین کی برف سورج کی روشنی کو بھی خلا میں منعکس کر کے زمین کو ٹھنڈا رکھتی ہے اور اس کو البیڈو ایفیکٹ (albedo effect) کہتے ہیں۔ ہم اس نئی اور موسمی برف کی روشنی منعکس کرنے کی استعداد کو چمکدار سیلیکون مائیکرو سفیئر کی مدد سے بڑھا سکتے ہیں اور یہ کوئی خطرناک یا زہریلی چیز نہیں ہے کیونکہ اس کی کیمیکل اور فزیکل خصوصیات بالکل ریت کی طرح کی ہوتی ہیں اور 25 ہزار مربع کلومیٹر پر اسے پھیلانے کے لیے صرف تین سو ملین ڈالر کی لاگت آئے گی لیکن اس سے ہم صرف آرکٹک کی برف کا صرف ایک فیصد حصہ ہیں ڈھامپ پائیں گے اس لئے ہمیں کئی ملین ٹن سلیقہ آرکٹک کی برف پر پھینکنی پڑے گی جو کہ برف کے پگھل جانے کی صورت میں زیر سمندر چلی جائے گی لیکن ہم اس چیز کے سمندری حیات پر مابعد اثرات سے بھی فی الحال واقف نہیں ہیں

ایک اور طریقہ جو کہ ہم استعمال کرسکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ سورج کی روشنی کو بادلوں کے ذریعے کم کیا جائے لیکن اس کے لیے ہمیں بادلوں کی ایک دبیز تہہ چاہیئے ہوگی جو سورج کی روشنی کو مؤثر طریقے سے منعکس کر سکے یہ مسئلہ مصنوعی بادلوں یا پہلے سے موجود بادلوں پر نمک والے پانی کے چھڑکاؤ سے حل کیا جاسکتا ہے۔ بس اس چیز کا پتہ لگانا ہوگا کہ اس نمکین پانی کی دھند کو نچلے کرہ ہوائی تک کیسےپہنچایا ۔جائے اور یہ پانی بھی دیگر تمام ملاوٹوں سے پاک ہونا چاہیے

یا پھر ہم ایک قدم اور آگے جائیں اور ہم اپنے برف کے تودے خود بنائیں پہلے ہمیں پانی کے ٹینک والی آبدوز کو پانی میں ڈبو کر سمندری پانی بھرنا ہوگا اور پھر آبدوز میں اس نمکین پانی کو صاف کرنا ہوگا جو کہ سمندری پانی میں سے نمک نکال لے گا اس کے بعد آبدوز کا فریزنگ سسٹم اس صاف شدہ پانی سے برف کے تودے بنائے گا جو تقریبا 16 فٹ موٹے اور 82 فٹ چوڑے ہوں گے۔

لیکن لیکن لیکن۔۔۔ جیسا کہ یہ سوچنے میں اچھا محسوس ہو رہا ہے مگر اس ٹھنڈا کرنے کے سسٹم کو جتنی توانائی چاہیے ہوگی اور اس کے بدلے میں جتنی حرارت خارج ہوگی وہ اس سے حاصل ہونے والے فائدے کی ہی نفی کر دے گی تو کیا ہمیں کوئی کوشش بھی کرنی چاہیے یا نہیں یا ہمیں صرف موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سےبرف کو دھیرے دھیرے ختم ہوتے دیکھنا چاہئے یہاں تک کہ قطب شمالی پربرف مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ جیسے جیسے دنیا کا درجہ حرارت بڑھتا جائے گا قطب شمالی کی پرما فراسٹ فضا میں مزید کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑ دے گی جو کہ دنیا کے درجہ حرارت کو مزید بلند کردے گی اور ظاہری بات ہے اس سے موجودہ موسمیاتی نظام بھی بری طرح متاثر ہوگا جو کہ پہلے سے ہی خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے سیلاب خشک سالی اور ہیڈ ویوز بہت بڑی تعداد میں آئیں گے۔

کچھ سائنسدانوں کا یہ ماننا ہے کہ قطب شمالی پر برف کی غیرموجودگی یورپ اور شمالی امریکہ میں زیادہ شدید سردیوں کا باعث بنے گی۔

اور ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس کے علاوہ اور کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ جن دنوں میں قطبی ریچھ کو خوراک کی کمی کی وجہ سے آرام کرنا چاہیے ہوتا ہے انہیں برف نہ ہونے کی وجہ سے تیرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں ان کی آبادی 2050 تک 10 ہزار سے بھی کم رہ جائے گی۔  یہ بہت ہی لاجواب ہو گا اگر ہم آرکٹک کو دوبارہ سے جما سکیں۔ ہمیں کم از کم آرکٹک کے ایک چھوٹے سے حصے کو جمانے کی کوشش تو کرنی چاہیے جو کہ ایک عارضی حل ہوگا اگر وہ ہم سب کچھ کرتے رہے جس سے آرکٹک کی برف پگھل رہی ہے۔  اب یہ ہم پر ہی منحصر ہے کہ ہم اپنے حصے کی کوشش کو بخوبی پورا کریں اور یہ ہم مندرجہ ذیل طریقوں سے حاصل کرسکتے ہیں۔

  • قابل تجدید توانائی مثلا شمسی توانائی وغیرہ کا استعمال
  • توانائی کی بچت کرنے والے آلات
  • گوشت کا کم سے کم استعمال
  • خوراک کو کم سے کم کچرے میں جانے دیا جائے
  • پانی کی غیر ضروری استعمال میں کمی
  • بجلی پر چلنے والی کاریں یا کم سے کم ایندھن خرچ کرنے والی کاریں خریدی جایئں

یہ اب ہم پر ہے کہ ہم اپنی دنیا کی کتنی مدد کر سکتے ہیں اور اگر یہ کافی نہیں ہے تو یاد رکھیں آپ حکومت سے ماحولیاتی آلودگی پر  پالیسیاں بنوانے کا حق رکھتے ہیں۔

ہم سب مل کر ماحولیاتی تبدیلیوں کو واپس اپنی پرانی حالت میں لا سکتے ہیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور اگر ہم نے ابھی کچھ نہ کیا تو ہمیں جلد ہی دنیا کو چھوڑنا پڑے گا اور کسی دوسرے سیارے کو ڈھونڈنا پڑے گا جس کوہم اپنا گھر کہہ سکیں۔

Show More

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close