قومی خبریں

پشاور ہائی کورٹ نے خیبر پختونخوا میں ترقیاتی سکیموں پر پابندی کیوں عائد کی؟

پشاور ہائی کورٹ نے ترقیاتی فنڈز کی تقسیم پر پابندی عائد کرتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت کو سات دن کے اندر ترقیاتی سکیموں کی مساوی تقسیم کے لیے قواعد و ضوابط مرتب کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔

یہ احکامات پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس عبد الشکور پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اپوزیشن جماعتوں کے ممبران صوبائی اسمبلی کی طرف سے دائرہ کردہ ایک رٹ درخواست کو نمٹاتے ہوئے جاری کیے۔

عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ متعلقہ حکام فنڈر کی مساوی تقسیم کے لیے مالی سال 2019-20 کے لیے باقاعدہ طورپر قواعد و ضوابط مرتب کریں تاکہ کسی ممبر کی کوئی حق تلافی نہ ہو۔

عدالت نے یہ کام ایک ہفتے کے اندر مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ فیصلے کے مطابق اس دوران صوبے میں تمام ترقیاتی فنڈز، جس میں غیر ملکی سکیمیں بھی شامل ہیں، کی تقسیم پر مکمل پابندی ہو گی۔

یہ درخواست خیبر پختونخوا اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اکرم خان درانی اور اپوزیشن جماعتوں کے 34 ایم پی ایز کی طرف سے دائر کی گئی تھی۔

 

ترقیاتی فنڈ کیا ہوتا ہے؟

وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر سال اخراجات کا تخمینہ لگانے کے لیے بجٹ کا اعلان کرتی ہے۔ جس میں ایک بڑا حصہ ترقیاتی فنڈر کے لیے مختص کیا جاتا ہے جسے سالانہ ترقیاتی پروگرام یا اے ڈی پی کہا جاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اے ڈی پی یا ترقیاتی فنڈز کل بجٹ کا تقریباً پچاس فیصد یا اس سے زیادہ حصہ مختص کیا جاتا ہے تاہم عام طورپر اس میں اضافہ یا کمی کا انحصار مجموعی بجٹ کے حجم پر ہوتا ہے۔

عام طورپر سالانہ ترقیاتی فنڈ کے حجم کا انحصار مجموعی طورپر صوبائی بجٹ پر ہوتا ہے۔ اگر صوبائی بجٹ کا حجم زیادہ ہوتو تو اس میں ایک بڑا حصہ ترقیاتی فنڈز کےلیے مختص کیا جاتا ہے لیکن اس کی شرح پہلے سے متعین نہیں ہوتی ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتیں سالانہ ترقیاتی فنڈز ممبران پارلمینٹ یا صوبائی اسمبلی کے ذریعے سے تقسیم کرتی ہیں جس کا مقصد ان کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھانا ہوتا ہے۔

صوبائی بجٹ میں ترقیاتی سکیموں کے علاوہ اور بھی کئی سارے چیزیں شامل ہوتی ہیں جسے ملازمین کی تنخوائیں اور ان کے پنشنز وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔

تاہم خیبر پختونخوا میں ممبران میں ترقیاتی سکیموں کی تقسیم کار کے لیے پہلے سے کوئی باقاعدہ فارمولہ موجود نہیں تھا۔ ان میں بیشتر فنڈز وزیراعلی کے صوابدیدی اختیار ہوتا ہے وہ چاہے کسی ممبر کو جاری کردیں یا فنڈز دینےسے انکار کردیں۔

پشاور کے سینئیر صحافی شاہد حمید کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعلی اکرم خان درانی نے اپنے دور حکومت میں تعمیر سڑک کے نام سے ایک فنڈ کا اجراء کیا تھا جس کے تحت اپوزیشن اور حکومتی ممبران صوبائی اسمبلی میں مساوی ترقیاتی فنڈز تقسیم کیے جاتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ سنہ 2008 میں جب اے این پی کے وزیراعلی امیر حیدر خان نے صوبے کی ذمہ داری سنبھالی تو انھوں نے بھی اس فنڈ کو جاری رکھتے ہوئے اس میں مزید اضافہ کردیا تھا۔ لیکن تحریک انصاف حکومت کے سابق وزیراعلی پرویز خٹک نے آکر اس فنڈ کو یکسر ختم کردیا اور اس طرح موجود وزیراعلی محمود خان بھی اپنے پیش رو کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز کے استعمال اور تقسیم کار اکثر اوقات وزیراعلی کا صوابدیدی اختیار رہا ہے لہذا اس ضمن میں پہلے سے کوئی باقاعدہ قواعد و ضوابط موجود نہیں ہیں۔

ترقیاتی فنڈ کس مقصد کےلیے استعمال کیا جاتا ہے؟

ملک میں تمام ترقیاتی کام اس فنڈ کے ذریعے سے کئے جاتے ہیں۔ ہرسال اے ڈی پی میں حکومت کی طرف سے سکیمیں ڈال دی جاتی ہیں اور پھر اسی بنیاد پر بجٹ میں منظوری کے بعد اراکین پارلمینٹ یا صوبائی اسمبلی کے ممبران کو جاری کرکے تعمیراتی کام کیے جاتے ہیں ۔

حکومت کی طرف سے بجٹ کی منظوری سے پہلے ’امبریلہ سکیمیں‘ بھی اے ڈی پی میں شامل کی جاتی ہیں ۔

ماہرین کے مطابق امبریلہ سکیمیں وہ ترقیاتی کام ہوتے ہیں جس کے پہلے سے باقاعدہ تفصیلات جاری نہیں کی جاتی بلکہ ایک اندازے کی بنیاد پر فنڈز مختص کئے جاتے ہیں۔

مثال کے طورپر حکومت کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اگلے سال صوبے میں سو کلومیٹر سڑک بنائی جائیگی تاہم اس سڑک کی دیگر تفصیلات نہیں ہوتی کہ یہ سڑک کس کس علاقے میں تعمیر کی جائیگی، اس پر لاگت کتنی آئیگی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب یہ سکیم منظور ہوجاتی ہے تو پھر وزیراعلی کے پاس اس کا پورا اختیار ہوتا ہے اس سکیم کو اپنے حلقے میں استعمال کرے یا کسی منظور نظر ممبر کو دے دیں۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close